Allama Iqbal

Allama Muhammad Iqbal's most famous 2 lines Poetry


کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں




لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب




ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہور پیدا




جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے




نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی




پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِراہ ہوں وہ کارواں تو ہے




یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو




نہیں یہ شانِ خودداری، چمن سے توڑ کر تجھکو
کوئ دستار میں رکھ لے کوئ زیب گلو کر لے




فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں، بیرونِ دریا کچھ نہیں




کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی




تم ہو اک زندہ و جاوید روایت کے چراغ
تم کوئ شام کا سورج ہو جو ڈھل جاؤ گے




ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِفطرت میں نوا کوئ




قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے




حرم رسوا ہوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے
جوانانِ تتاری کس قدر صاحبِ نظر نکلے




زباں سے کر گیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل
بنایا ہے نت پندار کو اپنا خدا تو نے




تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں




مٹ جاۓ گا گناہ کا تصور ہی جہاں سے اقبال
اگر ہو جاۓ یقیں پیدا کہ خدا دیکھ رہا ہے




غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں




دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی




نہ تو ذمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے




توحید کی امانت ہے سینوں میں ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشان ہمارا




خردمندوں سے کيا پوچھوں کہ ميری ابتدا کيا ہے
کہ ميں اس فکر ميں رہتا ہوں ، ميری انتہا کيا ہے




اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے ميں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبريا کيا ہے




دل پاک نہیں تو پاک ہو سکتا نہیں انسان
ورنہ ابلیس کو بھی آ تے تھے وضو کے فرا ئض بہت۔




من کی دولت ہاتھ آ تی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے ،آ تا ہے دھن جاتا ہے دھن۔




ہو ئے مد فونِ دریا زیرِ دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھا تے تھے جو بن کر گہر نکلے۔




مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا
مری خاک جگنو بنا کر اڑا۔




کہاں سے تو نے اے اقبالؔ سیکھی ہے درویشی
کہ چرچا با د شاہوں میں ہے تیری بے نیا زی کا۔




علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمینِ وظن۔




خو دی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا
وہی مملکتِ صبح و شام سے آ گاہ۔




میرے بچپن کے دن بھی کیا خو ب تھے اقبالؔ
بے نما زی بھی تھا اور بے گناہ بھی۔




ایک بار آ جا اقبال ؔ پھر کسی مظلوم کی آ واز بن کر
تیری تحریر کی ضرورت ہے کسی خامو ش تقر یر کو یہاں۔




سبب کچھ اور ہے ،تو جس کو خو د سمجھتا ہے
زوال بندۂ مو من کا بے زری سے نہیں۔




صبح کو باغ میں شبنم پڑتی ہے فقط اس لیے
کہ پتّا پتّا کرے تیرا ذکر با وضوہو کر۔




ضمیر جا گ ہی جاتا ہے ،اگر زندہ ہو اقبالؔ
کبھی گناہ سے پہلے ،تو کبھی گناہ سے پہلے۔




ڈھو نڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آ پ کو
آ پ ہی گو یا مسافر آ پ ہی منزل ہوں میں۔




بات سجدوں کی نہیں خلوصِ دل کی ہو تی ہے اقبالؔ
ہر میخا نے میں شرابی اور ہر مسجد میں نمازی نہیں ہو تا۔




اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو
وہ داغِ محبت دے جو چاند کو شرمادے۔




وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قر آ ں ہو کر۔




ہنسی آ تی ہے مجھے حسر تِ انسان پر
گناہ کرتا ہے خود،لعنت بھیجتا ہے شیطان پر۔




جفا جو عشق میں ہو تی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزہ ہی نہیں۔




خریدیں نہ جس کو ہم اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ وہ پاد شائی۔




بتوں سے تجھ کو امیدیں ، خدا سے نو امیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے۔




سجدہ خالق کو بھی ، ابلیس سے یا رانہ بھی
حشر میں کس سے محبت کا صلہ مانگے گا؟




داغِ سجود اگر تیری پیشا نی پر ہوا تو کیا
کو ئی ایسا سجدہ بھی کر کہ زمیں پر نشاں ر ہیں۔




کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبالؔ
وہ کون سا کام ہے جو ہو تا نہیں تیرے خدا سے۔




دیا رِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ ،نئی صبح و شام پیدا کر




صدقِ خلیل بھی ہے عشق ، صبرِ حسین بھی ہے عشق
معر کہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق۔




اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں ، بیگانے بھی نا خو ش
میں زہر ہلا ہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔




یوں تو خدا سے مانگنے جنت گیا تھا میں
کرب و بلا کو دیکھ کر نیت بدل گئی۔




خو دی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پو چھے بتا تیری رضاکیا ہے۔




ذرا سی بات تھی ،اندیشہ عجم نے اسے
بڑ ھا دیا ہے فقط زیبِ داستان کے لئے۔




بُرا سمجھوں انہیں مجھ سے ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خو د بھی تو ہوں اقبال نقتہ چینوں میں۔




علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حو ر نہیں۔


اُس جنوں سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا
جو یہ کہتا تھا خِرد سے کہ بہانے نہ تراش۔




عقابی رُوح جب بیدار ہو تی ہے جوانوں میں
نظر آ تی ہے ان کو اپنی منزل آ سمانوں میں۔




شاہین کبھی پر واز سے گِر کر نہیں مرتا
پر دم ہے اگرتو، تو نہیں خطرۂ افتاد۔




حُسن کردار سے نو رِ مجسم ہو جا
کہ اِ بلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جا ئے۔




عقل عیّار ہے ،سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلّا ہے ،نہ زاہد ،نہ حکیم۔




اپنے کردار پے ڈال کر پردہ اقبالؔ
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے۔




ستا روں سے آ گے جہا ں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحا ں اور بھی ہیں۔




حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایا ت میں کھو گئی۔




اذان تو ہو تی ہے اب مگر نہیں کو ئی مو ذن بلال سا
سر بسجدہ تو ہیں مو من مگر نہیں کو ئی زہراؑ کے لال سا۔




یوں تو سید بھی ہو ،مرزا بھی ہو ، افغان بھی ہو تم
یوں تو سبھی کچھ ہو بتا ؤ تو مسلمان بھی ہو تم؟




دُعا تو دل سے ما نگی جا تی ہے ،زبان سے نہیں اے اقبال
قبول تو اس کی بھی ہو تی ہے جس کی زباں نہیں ہو تی۔




نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آ سماں کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے ،تو نہیں جہاں کے لئے۔




کا فر کی یہ پہچا ن ہے کہ آ فا ق میں گُم ہے
مو من کی یہ پہچان کہ گُم اُس میں ہے آ فا ق




تیرے عشق کی انتہا چا ہتا ہوں
میری سا دگی دیکھ میں کیا چا ہتا ہوں




سجدوں کی عوض فردوس ملے یہ با ت مجھے منظو ر نہیں
بے لو ث عبا دت کرتا ہوں بندہ ہوں تیرا مز دور نہیں





تمنا دردِ دل کی ہو تو کر خد مت فقیروں کی نہیں ملتا یہ گو با د شا ہو ں کے خزینوں میں ہر


No comments:

Post a Comment

راۓ کا اظہار کریں۔