Jamal Ehsani

Index

جمال احسانی کی بہترین غزلیات





کوئی پُرساں ہی نہ ہم دل زدگاں کا نکلا​
شہر کا شہر اُسی دشمنِ جاں کا نکلا​

نئی بستی میں سبھی لوگ پُرانے نکلے​
ہم جہاں کے تھے کوئی بھی نہ وہاں کا نکلا​

زیست خمیازہ ء ادراک ہے اور کچھ بھی نہیں​
پسِ ہر سنگ اِک آئینہ زیاں کا نکلا​

دل عبث آرزوئے خاک میں پہنچا تہہِ آب​
عکس تک سروِ سرِ موجِ رواں کا نکلا​

زینہ ء ذات پہ دزدانہ قدم رکھتا ہوا
قافلہ کس کے تعقب میں گماں کا نکلا​

چارہ سازوں میں تھی اک چشم ندامت آثار​
یہ مسیحاؤں میں بیمار کہاں کا نکلا​

خس و خاشاکِ رہِ عشق ہوئے تو ہم سے​
اور اِک رشتہ نسیمِ گزراں کا نکلا​

تیرا انجام ہوا جو، وہی ہونا تھا جمالؔ​
اس جہاں میں تُو کسی اور جہاں کا نکلا​





بکھر گیا ہے جو موتی پرونے والا تھا​
وہ ہو رہا ہے یہاں جو نہ ہونے والا تھا​

اور اب یہ چاہتا ہوں کوئی غم بٹائے میرا​
میں اپنی مٹّی کبھی آپ ڈھونے والا تھا​

ترے نہ آنے سے دل بھی نہیں دُکھا شاید​
وگرنہ کیا میں سرِ شام سونے والا تھا​

ملا نہ تھا پر بچھڑنے کا رنج تھا مجھ کو​
جلا نہیں تھا مگر راکھ ہونے والا تھا​

ہزار طرح کے تھے رنج پچھلے موسم میں​
پر اتنا تھا کہ کوئی ساتھ رونے والا تھا​

جمال احسانی





کب پاؤں فگار نہیں ہوتے، کب سر پر دھول نہیں ہوتی
تری راہ میں چلنے والوں سے لیکن کبھی بھول نہیں ہوتی

سرِ کوچۂ عشق آ پہنچے ہو لیکن ذرا دھیان رہے کہ یہاں
کوئی نیکی کام نہیں آتی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی

ہر چند اندیشۂ جاں ہے بہت لیکن اس کارِ محبت میں
کوئی پل بے کار نہیں جاتا، کوئی بات فضول نہیں ہوتی

ترے وصل کی آس بدلتے ہوئے ترے ہجر کی آگ میں جلتے ہوئے
کب دل مصروف نہیں رہتا، کب جاں مشغول نہیں ہوتی

ہر رنگِ جنوں بھرنے والو، شب بیداری کرنے والو
ہے عشق وہ مزدوری جس میں محنت بھی وصول نہیں ہوتی

جمال احسانی





ایک فقیر چلا جاتا ہے پکّی سڑک پر گاؤں کی
آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی

آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینےلگے
ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی

اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا
پھر کبھی لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی

ڈار سے بچھڑا ہوا کبوتر، شاخ سے ٹوٹا ہوا گلاب
آدھا دھوپ کا سرمایہ ہے، آدھی دولت چھاؤں کی

اُس رستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی

جمال احسانی






جو تو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا
ہمارا کوئی تو پُرسانِ حال رہ جاتا

بُرا تھا یا وہ بھلا، لمحۂ محبت تھا
وہیں پہ سلسلہ ماہ و سال رہ جاتا

بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر اُن آنکھو ں سے
اُس ایک اشک کا کیا کیا ملال رہ جاتا

تمام آئینہ خانے کی لاج رہ جاتی
کوئی بھی عکس اگر بے مثال رہ جاتا

گر امتحانِ جنوں میں نہ کرتے قیس کی نقل
جمالؔ سب سے ضروری سوال رہ جاتا

جمال احسانی




جب کبھی خواب کی اُمید بندھا کرتی ہے
نیند آنکھوں میں پریشان پھرا کرتی ہے

یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

دیکھ بے چارگیء کوئے محبت کوئی دم
سائے کے واسطے دیوار دعا کرتی ہے

صورتِ دل بڑے شہروں میں رہِ یک طرفہ
جانے والوں کو بہت یاد کیا کرتی ہے

دو اُجالوں کی ملاتی ہوئی اک راہگزر
بے چراغی کے بڑے رنج سہا کرتی ہے

جمال احسانی




عشق میں خود سے محبت نہیں کی جا سکتی
پر کسی کو یہ نصیحت نہیں کی جا سکتی

کنجیاں خانۂ ہمسایہ کی رکھتے کیوں ہو
اپنےجب گھر کی حفاظت نہیں کی جا سکتی

کچھ تو مشکل ہے بہت کارِ محبت اور کچھ
یار لوگوں سے مشقت نہیں کی جاسکتی

طائرِ یاد کو کم تھا شجرِ دل ورنہ
بے سبب ترکِ سکونت نہیں کی جاسکتی

اک سفر میں کوئی دو بار نہیں لُٹ سکتا
اب دوبارہ تری چاہت نہیں کی جا سکتی

کوئی ہو بھی تو ذرا چاہنے والا تیرا
راہ چلتوں سے رقابت نہیں کی جاسکتی

آسماں پر بھی جہاں لوگ جھگڑتے ہوں جمالؔ
اُس زمیں کے لئے ہجرت نہیں کی جا سکتی

جمال احسانی





کسی بھی دشت، کسی بھی نگر چلا جاتا
میں اپنے ساتھ ہی رہتا جدھر چلا جاتا

وہ جس منڈیر پہ چھوڑ آیا اپنی آنکھیں میں
چراغ ہوتا تو لو بھول کر چلا جاتا

اگر میں کھڑکیا ں، دروازے بند کر لیتا
تو گھر کا بھید سرِ رہ گزر چلا جاتا

مرا مکاں مری غفلت سے بچ گیا ورنہ
کوئی چرا کے مرے بام و در چلا جاتا

تھکن بہت تھی مگر سایہء شجر میں جمال
میں بیٹھتا تو مرا ہم سفر چلا جاتا

جمال احسانی






سلوکِ نا روا کا اس لئے شکوہ نہیں کرتا
کہ میں بھی تو کسی کی بات کی پروا نہیں کرتا

ترا اصرار سر آنکھوں پہ تجھ کو بھول جانے کی
میں کوشش کرکے دیکھوں گا مگر وعدہ نہیں کرتا

بہت ہشیار ہوں اپنی لڑائی آپ لڑتا ہوں
میں دل کی بات کو دیوار پر لکھا نہیں کرتا

اگر پڑ جائے عادت آپ اپنے ساتھ رہنے کی
یہ ساتھ ایسا ہے کہ انسان کو تنہا نہیں کرتا

زمیں پیروں سے کتنی بار اک دن میں نکلتی ہے
میں ایسے حادثوں پر دل مگر چھوٹا نہیں کرتا

جمال احسانی






ذرا سی بات پہ دل سے بگاڑ آیا ہوں
بنا بنایا ہوا گھر اجاڑ آیا ہوں

وہ انتقام کی آتش تھی میرے سینے میں
ملا نہ کوئی تو خود کو پچھاڑ آیا ہوں

میں اس جہان کی قسمت بدلنے نکلا تھا
اور اپنے ہاتھ کا لکھا ہی پھاڑ آیا ہوں

اب اپنے دوسرے پھیرے کے انتظار میں ہوں
جہاں جہاں مرے دشمن ہیں تاڑ آیا ہوں

میں اُس گلی میں گیا اور دل و نگاہ سمیت
جمال جیب میں جو کچھ تھا جھاڑ آیا ہوں

جمال احسانی






چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں تھا حائل
وہ فاصلہ تو زمین آسمان میں بھی نہ تھا​

یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے​
یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا​

ہوا نہ جانے کہاں لے گئی وہ تیر کہ جو​
نشانے پر بھی نہ تھا اور کمان میں بھی نہ تھا​

جمال پہلی شناسائی کا وہ اک لمحہ
اسے بھی یاد نہ تھا، میرے دھیان میں بھی نہ تھا​

جمال احسانی





نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا
بس اک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا

نکل پڑیں گے گھروں سے تمام سیارے
اگر زمین نے ہلکا سا اک اشارہ کیا

جو دل کے طاق میں تو نے چراغ رکھا تھا
نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا

پرائی آگ کو گھر میں اٹھا کے لے آیا
یہ کام دل نے بغیر اجرت و خسارہ کیا

عجب ہے تو کہ تجھے ہجر بھی گراں گزرا
اور ایک ہم کہ ترا وصل بھی گوارا کیا

ہمیشہ ہاتھ رہا ہے جمال آنکھوں پر
کبھی خیال کبھی خواب پر گزارہ کیا

جمال احسانی

لے جا رہے ہیں سر بسر اپنی جگہ
دشت اب اپنی جگہ باقی نہ گھر اپنی جگہ​

نامساعد صورتِ حالات کے باوصف بھی​
خود بنالیتے ہیں جنگل میں شجر اپنی جگہ

میں بھی نادم ہوں کہ سب کے ساتھ چل سکتا نہیں​
اور شرمندہ ہیں میرے ہمسفر اپنی جگہ​

کیوں سِمٹتی جا رہی ہیں خود بخود آبادیاں​
چھوڑتے کیوں جا رہے ہیں بام و در اپنی جگہ​

چاند کے ہمراہ وہ جلوہ نما ہے بام پر​
اور قدموں کو پکڑتی رہگزر اپنی جگہ​

جو کچھ اِن آنکھوں نے دیکھا ہے، میں اُس کا کیا کروں​
شہر میں پھیلی ہوئی جھوٹی خبر اپنی جگہ​

ایک اندیشہ تو اُس کی ہمرہی سے ہے مجھے​
اور پھر اُس کے بچھڑ جانے کا ڈر اپنی جگہ​

اِس نگر سے کوچ کرنا بھی مرے بس میں نہیں​
اِس نگر پر میرے دشمن کا اثر اپنی جگہ​

میں جمالؔ اپنی جگہ سے اس لئے ہٹتا نہیں​
وہ گھڑی آجائے شاید لوٹ کر اپنی جگہ​

جمال احسانی





یہ شہر اپنے حریفوں سے ہارا تھوڑی ہے
یہ بات سب پہ مگر آشکارا تھوڑی ہے

ترا فراق تو رزق حلال ہے مجھ کو
یہ پھل پرائے شجر سے اُتارا تھوڑی ہے

جو عشق کرتا ہے چلتی ہوا سے لڑتا ہے
یہ جھگڑا صرف ہمارا تمہارا تھوڑی ہے

درِ نگاہ پہ اس کے جو ہم نے عمر گنوائی
یہ فائدہ ہے مری جاں خسارہ تھوڑی ہے

یہ لوگ تجھ سے ہمیں دور کر رہے ہیں مگر
ترے بغیر ہمارا گزارا تھوڑی ہے

جمالؔ آج تو جانے کی مت کرو جلدی
کہ پھر نصیب یہ صحبت دوبارہ تھوڑی ہے

جمال احسانی








ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے
یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے

اک بھولی ہوئی بات ہے اِک ٹوٹا ہوا خواب
ہم اہلِ محبت کو یہ اِملاک بہت ہے

کچھ دربدری راس بہت آئی ہے مجھ کو
کچھ خانہ خرابوں میں مِری دھاک بہت ہے

پرواز کو پر کھول نہیں پاتا ہوں اپنے
اور دیکھنے میں وسعت افلاک بہت ہے

کیا اس سے ملاقات کا اِمکاں‌ بھی نہیں اب
کیوں ان دنوں میلی تری پوشاک بہت ہے

آنکھوں میں ہیں محفوظ ترے عشق کے لمحات
دریا کو خیالِ خس و خاشاک بہت ہے

نادم ہے بہت تو بھی جمالؔ اپنے کئے پر
اور دیکھ لے وہ آنکھ بھی نمناک بہت ہے

جمال احسانی






ہے جس کے ہاتھ میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں​
کہ فکرِ آئینہء جسم و جاں، یہاں بھی نہیں​

جو بات تیری نظر میں ہے اور مرے دل میں​
اگر زباں پہ نہ آئے تو رائیگاں بھی نہیں​

اب اُس نے وقت نکالا ہے حال سُننے کو​
بیان کرنے کو جب کوئی داستاں بھی نہیں​

وہ دل سے سرسری گزرا، کرم کیا اُس نے
کہ رہنے کا متحمل تو یہ مکاں بھی نہیں​

زمین پیروں سے نکلی تو یہ ہوا معلوم​
ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں​

سفر میں چلتے نہیں عام زندگی کے اُصول​
وہ ہم قدم ہے مرا جو مزاج داں بھی نہیں​

نہیں پسند کوئی بے توجہی اُس کو ​
اور اپنے چاہنے والوں پہ مہرباں بھی نہیں​

مرے ہی گھر میں اندھیرا نہیں ہے صرف جمالؔ​
کوئی چراغ فروزاں کسی کے ہاں بھی نہیں​

جمال احسانی






کوئی بھی شکل ہو یا نام، کوئی یاد نہ تھا​
عجیب شام تھی، اُس شام کوئی یاد نہ تھا​

جنہیں پلٹنے کی فرصت نہیں رہی وہ لوگ​
گھروں سے نکلے تھے تو کام کوئی یاد نہ تھا​

ستارہ ء سفر اپنے بچھڑنے والوں کو​
پکارتا رہا گو نام کوئی یاد نہ تھا​

تری گلی ہی نہیں تیرے شہر تک کو بھی​
ہم ایسا صاحبِ آرام کوئی یاد نہ تھا​

متاعِ عمر ہوئی خرچ اور بتاتے ہوئے​
نہ وہ دریچہ نہ وہ بام کوئی یاد نہ تھا

جمال احسانی





وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

نئی رُتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کہ کہیں دن سنورنے والے تھے

ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
پر اُس کے طور طریقے مُکرنے والے تھے

تمھیں تو فخر تھا شیرازہ بندیء جاں پر
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اُتر ہی گئے جو اُترنے والے تھے

اُس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھیری نہیں
وہاں بھی چند مُسافر اُترنے والے تھے
جمال احسانی








No comments:

Post a Comment

راۓ کا اظہار کریں۔