اشکوں کو مری آنکھ میں آنے نہیں دیتا
اک شخص مجھے سوگ منانے نہیں دیتا
وہ اپنی اداؤں سے رجھاتا ہے مجھے روز
لیکن مجھے نزدیک بھی آنے نہیں دیتا
وہ خود بھی نہیں کرتا میرے غم کا مداوہ
آواز بھی اوروں کو لگانے نہیں دیتا
میں ملنے بچھڑنے سے تڑپنے تلک آیا
یہ کس نے کہا عشق زمانے نہیں دیتا
آنکھیں بھی کروں بند تو رہتا ہے مقابل
آئینہ تو چہرہ بھی چھپانے نہیں دیتا
پندار یہ کہتا ہے کہ سر جھکنے نہ پائے
احسان مگر سر ہی اٹھانے نہیں دیتا
وہ خواب جو آنکھوں میں سمانے پہ بضد ہے
کمبخت مجھے نیند بھی آنے نہیں دیتا
اک میری تمنا ہے کہ جی بھر تجھے دیکھوں
اک حسن ترا آنکھ اٹھانے نہیں دیتا
اک درد کہ اب سہنے کی طاقت نہیں مجھ میں
اک ڈر ہے کہ دنیا کو بتانے نہیں دیتا
ہر لمحہ بدلتے ہوئے جذبوں کا تلاطم
رستے پہ قدم مجھ کو جمانے نہیں دیتا
اک پل میں بدلتا ہے وہ حالت مرے دل کی
چہرے پہ کوئی رنگ بھی آنے نہیں دیتا
وہ خوف نہیں ہے تو بھلا کیا ہے؟ جو احساس
فریادی کو زنجیر ہلانے نہیں دیتا
تم نے مجھے اک بار بھی روکا نہیں؟ حد ہے!!
میں ہوتا تو ہرگز تمہیں جانے نہیں دیتا
دیتا ہوں سبق ہنس کے ستم سہنے کا اس کو
میں دل کو کبھی شور مچانے نہیں دیتا
No comments:
Post a Comment
راۓ کا اظہار کریں۔