Once, someone asked Hatim Tai " Is a person exists in this world who is more generous than you." He said “ yes, one day I slaughtered forty camels, and I allowed everyone to get as much meat as one can. A huge crowd of people had come to my Durbar.
At the same time, I had to go to the jungle for a work. When I reached there, I saw an old man carrying a heavy bundle of woods. I asked him that why he never went to my Durbar. He replied “ Why a person is destitute if he can earn by himself."
Destitution
Khizaan Ki Rut Main...
خزاں کی رُت میں گلاب لہجہ ، بنا کے رکھنا ، کمال یہ ھے
ھوا کی زد پہ دِیا جلانا ، جَلا کے رکھنا ، کمال یہ ھے
ذرا سی لغزش پہ ، توڑ دیتے ھیں سب تعلق زمانے والے
سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا ، کمال یہ ہے
کسی کو دینا یہ مشورہ کہ ، وہ دُکھ بچھڑنے کا بھول جائے
اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا ، کمال یہ ہے
خیال اپنا ، مزاج اپنا ، پسند اپنی ، کمال کیا ھے
جو یار چاھے وہ حال اپنا بنا کے رکھنا ، کمال یہ ھے
کسی کی راہ سے خدا کی خاطر ، اٹھا کے کانٹے ، ھٹا کے پتھر
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا ، کمال یہ ھے
وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے ، شکست کھائے
لبوں پہ اپنے وہ مسکراھٹ سجا کے رکھنا، کمال یہ ھے
ھزار طاقت ھو، ھوں سو دلیلیں پھر بھی لہجے میں عاجزی سے
ادب کی لذت ، دعا کی خوشبو ، بسا کے رکھنا ، کمال یہ ھے
Ek Pal Main....
اک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھیے
دو دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھیے
بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدّتوں میں ہم
قسطوں میں خود کشی کا مزا ہم سے پوچھیے
آغازِعاشقی کا مزا آپ جانیے
انجامِ عاشقی کا مزا ہم سے پوچھیے
وہ جان ہی گئے کہ ہمیں ان سے پیار ہے
آنکھوں کی مخبری کا مزا ہم سے پوچھیے
جلتے دلوں میں جلتے گھروں جیسی ضَو کہاں
سرکار روشنی کا مزا ہم سے پوچھیے
ہنسنے کا شوق ہم کو بھی تھا آپ کی طرح
ہنسیے مگر ہنسی کا مزا ہم سے پوچھیے
ہم توبہ کر کے مر گئے قبلِ اجل خمار
توہینِ مے کشی کا مزا ہم سے پوچھیے
Fizaa E Rang Main...
فضائے رنگ میں ، رنگینیِ جاں سے لڑائی ہے
بہار آئی ہے اور جانِ بہاراں سے لڑائی ہے
یہی شاید وہ منزل ہے جہاں دل خون ہو جائے
کہ اشک امڈے ہوئے ہیں اور داماں سے لڑائی ہے
مشام شوق پر جو کچھ گزرتی ہے وہ مت پوچھو
کہ اب تک نکہت زلف پریشاں سے لڑائی ہے
وہ گیسو مجھ سے برہم ہیں، وہ عارض مجھ سے نا خوش ہیں
سمن سے، یا سمن سے، سنبلستاں سے لڑائی ہے
گلوں کی طرح میں بیجا ہنسی کیونکر ہنسوں آخر
بہت دن ہو گئے، لب ہائے خنداں سے لڑائی ہے
نہ آئیں گے ادھر جلوے، نہ جائیں گی ادھر نظریں
ہمارے شہر سے اور مصر وکنعاں سے لڑائی ہے
نہ ہو غمگیں شعور زندگی تو اور پھر کیا ہو
کہ شام عشرت و صبح غزلخواں سے لڑائی ہے
جون ایلیا
Lehja O Usloob..
لہجہ و اسلوب و تجدیدُِہنر اپنی جگہ
خود بناتا ہے کلامِ معتبر اپنی جگہ
میرا دل اپنی جگہ ، اس کی نظر اپنی جگہ
آئینہ اپنی جگہ ، آئینہ گر اپنی جگہ
مانجھیوں کے گیت ،جھیلیں ،کشتیاں ، برحق سبھی
اور اُونٹوں کا وہ صحرائی سفر اپنی جگہ
آنکھ اشکوں کا وطن ہے اور بڑا پیارا وطن
ہنس آخر چھوڑ کر جائیں کدھر اپنی جگہ
ہے پر جبریل سے اچھا مرا خامہ مجھے
کونج ، سرخاب اور یہ موروں کے پر اپنی جگہ
بیدلؔ اپنے شہرِ دل میں زلزلوں کے باوجود
پختہ گھر اپنی جگہ ، لکڑی کے گھر اپنی جگہ
Sukoot e Shaam e Khizaañ....
سکوتِ شامِ خزاں ہے قریب آ جاؤ
بڑا اداس سماں ہے قریب آ جاؤ
نہ تم کو خود پہ بھروسا نہ ہم کو زعمِ وفا
نہ اعتبارِ جہاں ہے قریب آ جاؤ
رہِ طلب میں کسی کو کسی کا دھیان نہیں
ہجومِ ہم سفراں ہے قریب آ جاؤ
جو دشتِ عشق میں بچھڑے وہ عمر بھر نہ ملے
یہاں دھواں ہی دھواں ہے قریب آ جاؤ
یہ آندھیاں ہیں تو شہرِ وفا کی خیر نہیں
زمانہ خاک فشاں ہے قریب آ جاؤ
فقیہِ شہر کی مجلس نہیں کہ دور رہو
یہ بزمِ پیرِ مغاں ہے قریب آ جاؤ
فراز دور کے سورج غروب سمجھے گئے
یہ دورِ کم نظراں ہے قریب آ جاؤ
احمد فراز
Tumhari Baat Nahi....
تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی
اُن کی پوری غزل کچھ یوں تھی
مرا نصیب ہوئیں تلخیاں زمانے کی
کسی نے خوب سزا دی ہے مسکرانے کی
مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا
ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی
میں دیکھتا ہوں ہر اک سمت پنچھیوں کا ہجوم
الٰہی خیر ہو صیاد کے گھرانے کی
قدم قدم پہ صلیبوں کے جال پھیلا دو
کہ سرکشی کو تو عادت ہے سر اُٹھانے کی
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
ہزار ہاتھ گریباں تک آ گئے ازہر
ابھی تو بات چلی بھی نہ تھی زمانے کی
ازہر درانی
Jo Tu Gaya tha...
جو تو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا
ہمارا کوئی تو پُرسانِ حال رہ جاتا
بُرا تھا یا وہ بھلا، لمحۂ محبت تھا
وہیں پہ سلسلہ ماہ و سال رہ جاتا
بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر اُن آنکھو ں سے
اُس ایک اشک کا کیا کیا ملال رہ جاتا
تمام آئینہ خانے کی لاج رہ جاتی
کوئی بھی عکس اگر بے مثال رہ جاتا
گر امتحانِ جنوں میں نہ کرتے قیس کی نقل
جمالؔ سب سے ضروری سوال رہ جاتا
جمال احسانی
Ek faqeer Chala Jata Hai....
ایک فقیر چلا جاتا ہے پکّی سڑک پر گاؤں کی
آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی
آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینےلگے
ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی
اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا
پھر کبھی لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی
ڈار سے بچھڑا ہوا کبوتر، شاخ سے ٹوٹا ہوا گلاب
آدھا دھوپ کا سرمایہ ہے، آدھی دولت چھاؤں کی
اُس رستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی
جمال احسانی
Kb Paaon Figaar Nahi...
کب پاؤں فگار نہیں ہوتے، کب سر پر دھول نہیں ہوتی
تری راہ میں چلنے والوں سے لیکن کبھی بھول نہیں ہوتی
سرِ کوچۂ عشق آ پہنچے ہو لیکن ذرا دھیان رہے کہ یہاں
کوئی نیکی کام نہیں آتی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی
ہر چند اندیشۂ جاں ہے بہت لیکن اس کارِ محبت میں
کوئی پل بے کار نہیں جاتا، کوئی بات فضول نہیں ہوتی
ترے وصل کی آس بدلتے ہوئے ترے ہجر کی آگ میں جلتے ہوئے
کب دل مصروف نہیں رہتا، کب جاں مشغول نہیں ہوتی
ہر رنگِ جنوں بھرنے والو، شب بیداری کرنے والو
ہے عشق وہ مزدوری جس میں محنت بھی وصول نہیں ہوتی
جمال احسانی
Bhikhar Gaya Jo....
بکھر گیا ہے جو موتی پرونے والا تھا
وہ ہو رہا ہے یہاں جو نہ ہونے والا تھا
اور اب یہ چاہتا ہوں کوئی غم بٹائے میرا
میں اپنی مٹّی کبھی آپ ڈھونے والا تھا
ترے نہ آنے سے دل بھی نہیں دُکھا شاید
وگرنہ کیا میں سرِ شام سونے والا تھا
ملا نہ تھا پر بچھڑنے کا رنج تھا مجھ کو
جلا نہیں تھا مگر راکھ ہونے والا تھا
ہزار طرح کے تھے رنج پچھلے موسم میں
پر اتنا تھا کہ کوئی ساتھ رونے والا تھا
جمال احسانی
Koi Pursaan Hi...
کوئی پُرساں ہی نہ ہم دل زدگاں کا نکلا
شہر کا شہر اُسی دشمنِ جاں کا نکلا
نئی بستی میں سبھی لوگ پُرانے نکلے
ہم جہاں کے تھے کوئی بھی نہ وہاں کا نکلا
زیست خمیازہ ء ادراک ہے اور کچھ بھی نہیں
پسِ ہر سنگ اِک آئینہ زیاں کا نکلا
دل عبث آرزوئے خاک میں پہنچا تہہِ آب
عکس تک سروِ سرِ موجِ رواں کا نکلا
زینہ ء ذات پہ دزدانہ قدم رکھتا ہوا
قافلہ کس کے تعقب میں گماں کا نکلا
چارہ سازوں میں تھی اک چشم ندامت آثار
یہ مسیحاؤں میں بیمار کہاں کا نکلا
خس و خاشاکِ رہِ عشق ہوئے تو ہم سے
اور اِک رشتہ نسیمِ گزراں کا نکلا
تیرا انجام ہوا جو، وہی ہونا تھا جمالؔ
اس جہاں میں تُو کسی اور جہاں کا نکلا
جمال احسانی
Agar Ye Keh ....
اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا
یا اِس پہ مبنی کوئی تاثر، کوئی اِشارا، تو میں تمہارا
غُرور پرور، انا کا مالک، کچھ اس طرح کے ہیں نام میرے
مگر قسم سے جو تُم نے اِک نام بھی پکارا ، تو میں تمہارا
تُم اپنی شرطوں پہ کھیل کھیلو، میں جیسے چاہے لگاؤں بازی
اگر میں جیتا تو تم ہو میرے، اگر میں ہارا ، تو میں تمہارا
تمہارا عاشق، تمہارا مخلص، تمہارا ساتھی، تمہارا اپنا
رہا نہ اِن میں سے کوئی دنیا میں جب تُمہارا ، تو میں تُمہارا
تمہارا ہونے کے فیصلے کو میں اپنی قسمت پہ چھوڑتا ہوں
اگر مقدر کا کوئی ٹوٹا کبھی ستارا، تو میں تمہارا
یہ کس پہ تعویز کر رہے ہو، یہ کس کو پانے کے ہیں وظیفے
تمام چھوڑو بس ایک کر لو جو استخارہ، تو میں تمہارا
عامر امیرؔ
Hum Ashk e Gham Hain
ہم اشکِ غم ہیں، اگر تھم رہے رہے نہ رہے
مژہ پہ آن کے ٹک جم رہے رہے نہ رہے
رہیں وہ شخص جو بزمِ جہاں کی رونق ہیں
ہماری کیا ہے اگر ہم رہے رہے نہ رہے
مجھے ہے نزع، وہ آتا ہے دیکھنے اب آہ
کہ اس کے آنے تلک دم رہے رہے نہ رہے
بقا ہماری جو پوچھو تو جوں چراغِ مزار
ہوا کے بیچ کوئی دم رہے رہے نہ رہے
چلو جو ہم سے تومل لو کہ ہم بہ نوکِ گیاہ
مثالِ قطرۂ شبنم رہے رہے نہ رہے
یہی ہے عزم کہ دل بھر کے آج رو لیجے
کہ کل یہ دیدۂ پُرنم رہے رہے نہ رہے
یہی سمجھ لو ہمیں تم کہ اِک مسافر ہیں
جو چلتے چلتے کہیں تھم رہے رہے نہ رہے
نظیر آج ہی چل کر بتوں سے مل لیجے
پھر اشتیاق کا عالم رہے رہے نہ رہے
نظیر آکبرآبادی
Khoon Rez Karishma....
خُوں ریز کرشمہ، ناز و ستم، غمزوں کی جھُکاوٹ ویسی ہے
مژگاں کی سناں، نظروں کی انی، ابرو کی کھِچاوٹ ویسی ہے
قتّال نگہ اور ڈشٹ غضب، آنکھوں کی لَگاوٹ ویسی ہے
پلکوں کی جھَپک، پُتلی کی پھِرت، سُرمے کی گھُلاوٹ ویسی ہے
عیّار نظر، مکّار ادا، تیوری کی چَڑھاوٹ ویسی ہے
بے درد، ستمگر، بے پروا، بے کل، چنچل، چَٹکیلی سی
دل سخت قیامت پتھر سا اور باتیں نرم رسیلی سی
آنوں کی بان ہٹیلی سی، کاجل کی آنکھ کٹیلی سی
وہ انکھیاں مست نشیلی سی، کچھ کالی سی کچھ پیلی سی
چِتوَن کی دغا، نظروں کی کَپَٹ، سینوں کی لَڑاوٹ ویسی ہے
تھی خوب دوپٹہ کی سر پر سنجاف تمامی کی الٹی
بل دار لَٹیں، تصویر جبیں، جکڑی مینڈھی، سجّی کنگھی
دل لُوٹ نہ جاوے اب کیونکر اور دیکھ نہ نکلے کیونکر جی
وہ رات اندھیری بالوں سے، وہ مانگ چمکتی بجلی سی
زلفوں کی کھُلت، پٹی کی چمت، چوٹی کی گُندھاوٹ ویسی ہے
اس کافر بینی اور نتھ کے انداز قیامت شان بھرے
اور گہرے چاہِ زنخداں میں سو آفت کے طوفان بھرے
وہ نرمے صاف ستارا سے اور موتی سے دامان بھرے
وہ کان جواہر کان بھرے کن پھولوں، بالے جان بھرے
بُندے کی لٹک،جھُمکے کی جھمک، بالے کی ہِلاوٹ ویسی ہے
چہرے پر حسن کی گرمی سے ہر آن چمکتے موتی سے
خوش رنگ پسینے کی بُوندیں، سو بار جھمکتے موتی سے
ہنسنے کی ادا میں پھول جھڑے، باتوں میں ٹپکتے موتی سے
وہ پتلے پتلے ہونٹ غضب، اور دانت چمکتے موتی سے
پاؤں کی رنگاوٹ قہر ستم، دھڑیوں کی جماوٹ ویسی ہے
اس سینے کا وہ چاک ستم، اس کُرتی کا تزّیب غضب
اس قد کی زینت قہر بلا، اس کافر چھب کا زیب غضب
ان ڈبیوں کا آزار بُرا، ان گیندوں کا آسیب غضب
وہ چھوٹی چھوٹی سخت کچیں، وہ کچے کچے سیب غضب
انگیا کی بھڑک، گوٹوں کی جھمک، بُندوں کی کساوٹ ویسی ہے
تھی پہنے دونوں ہاتھوں میں کافر جو کڑے گنگا جمنی
کچھ شوخ کڑوں کی جھنکاریں، کچھ جھمکے چوڑی باہوں کی
یہ دیکھ کے عالم عاشق کا سینے میں نہ تڑپے کیونکر جی
وہ پتلی پتلی انگشتیں، پوریں وہ نازک نازک سی
مہندی کی رنگت، فندق کی نبت، چھلّوں کی چھلاوٹ ویسی ہے
تقریر بیاں سے باہر ہے، وہ کافر حسن اہا ہاہا
کچھ آپ نئی، کچھ حسن نیا، کچھ جوش جوانی اٹھنے کا
لپکیں جھپکیں ان باہوں کی، یارو میں آہ کہوں کیا کیا
وہ بانکے بازو ہوش ربا، عاشق سے کھیلے بانک پٹا
پہونچی کی پہنچ پہونچے یہ غضب، بانکوں کی بندھاوٹ ویسی ہے
وہ کافر دھج جی دیکھ جسے سو بار قیامت کا لرزے
پازیب، کڑے، پائل، گھنگرو، کڑیاں، چھڑیاں، گجرے، توڑے
ہر جنبش میں سو جھنکاریں، ہر ایک قدم پر سو جھمکے
وہ چنچل چال جوانی کی، اونچی ایڑی، نیچے پنجے
کفشوں کی کھٹک، دامن کی جھٹک، ٹھوکر کی لگاوٹ ویسی ہے
اک شورِ قیامت ساتھ چلے، نکلے کافر جس دم بن ٹھن
بل دار کمر، رفتار غضب، دل کی قاتل، جی کی دشمن
مذکور کروں کیا اب یارو، اس شوخ کے کیا کیا چنچل پن
کچھ ہاتھ ہلیں، کچھ پاؤں ہلیں، پھڑکے بازو تھرکے سب تن
گالی وہ بلا، تالی وہ ستم، انگلی کی نچاوٹ ویسی ہے
یہ ہوش قیامت کافر کا، جو بات کہوں وہ سب سمجھے
روٹھے، مچلے، سو سوانگ کرے، باتوں میں لڑے، نظروں میں ملے
یہ شوخی، پھرتی، بے تابی، ایک آن کبھی نِچلی نہ رہے
چنچل اچپل، مٹکے چٹکے، سر کھولے ڈھانکے، ہنس ہنس کے
قہقہہ کی ہنساوٹ اور غضب ٹھٹھوں کی اڑاوٹ ویسی ہے
کہنی مارے چٹکی لے کے، چھیڑے جھڑکے، دیو ے گالی
ہر آن چہ خوش، ہر دم اچھا، ہر بات خوشی کی چہل بھری
نظروں میں صاف اُڑا لے دل، اس ڈھب کی کافر عیّار ی
اور ہٹ جاوے سو کوس پرے، گر بات کہوں کچھ مطلب کی
رمزوں کے ضلعے، غمزوں کی جُگت، پھبتی کی پھباوٹ ویسی ہے
قاتل ہر آن نئے عالم، کافر ہر آن نئی جھمکیں
بانکی نظریں، ترچھی پلکیں، بھولی صورت، میٹھی باتیں
دل بس کرنے کے لاکھوں ڈھب، جی لینے کی سو سو گھاتیں
ہر وقت پھبن، ہر آن سجن، دم دم میں بدلے لاکھ سجیں
باہوں کی جھپک، گھونگٹ کی ادا، جوبن کی دکھاوٹ ویسی ہے
جو اس پر حسن کا عالم ہے، وہ عالم حور کہاں پاوے
کہ پردہ منہ سے دور کرے، خورشید کو چکر آ جاوے
جب ایسا حسن بھبھوکا ہو، دل تاب بھلا کیونکر لاوے
وہ مکھڑا چاند کا ٹکڑا سا، جو دیکھ پری کو غش آوے
گالوں کی دمک، چوٹی کی جھمک، رنگوں کی کھلاوٹ ویسی ہے
تصویر کا عالم نکھ سکھ سے چھب تختی صاف پری کی سی
کچھ چین جبیں پر اینٹھ رہی، اور ہونٹوں میں کچھ گالی سی
بے دردی سختی بہتیری اور مہر و محبت تھوڑی سی
جھوٹی عیّاری، ناک چڑھی، بھولی بھالی، پکّی پیسی
باتوں کی لگاوٹ قہر ستم، نظروں کی ملاوٹ ویسی ہے
کچھ ناز و ادا، کچھ مغروری، کچھ شرم و حیا، کچھ بانک پنا
کچھ آمد حسن کے موسم کی، کچھ کافر حسن رہا گدرا
کچھ شور جوانی اٹھنی کا، چڑھتا ہے امڈ کر جُوں دریا
وہ سینہ ابھرا جوش بھرا، وہ عالم جس کا جھوم رہا
شانوں کی اکڑ، جوبن کی تکڑ، سج دھج کی سجاوٹ ویسی ہے
یہ کافر گُدّی کا عالم، گھبرائے پری بھی دیکھ جسے
وہ گورا صاف گلا ایسا، بہہ جاوے موتی دیکھ جسے
دل لوٹے، تڑپے، ہاتھ ملے، اور غش کھاوے جی دیکھ جسے
وہ گردن اونچی حسن بھری، کٹ جائے صراحی دیکھ جسے
دائیں کی مزت، بائیں کی پھرت، مونڈھوں کی کھچاوٹ ویسی ہے
جب ایسے حسن کا دریا ہو، کس طور نہ لہروں میں بہیے
گر مہر و محبت ہو بہتر، اور جور و جفا ہو تو سہیے
دل لوٹ گیا ہے غش کھا کر، کریں اور تو آگے کیا کہیے
مل جائے نظیرؔ ایسی جو پری چھاتی سے لپٹ کر سو رہیے
بوسوں کی جھپک، بغلوں کی لپک، سینوں کی ملاوٹ ویسی ہے
نظیر آکبرآبادی
Tuk Hiras o Hawa .....
ٹُک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں، مت دیس بدیس پھرے مارا
قزٌاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقٌارا
کیا بدھیا، بھینسا، بیل، شتر، کیا گونی پلا ، سر بھارا
کیا گیہوں ، چاول، موٹھ ، مٹر ، کیا آگ، دھواں، کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا
گر تُو ہے لکھی بنجارا ، اور کھیپ بھی تیری بھاری ہے
اے غافل تجھ سے بھی چڑھتا ایک اور بڑا بیوپاری ہے
کیا شکٌر ، مصری، قند، گری، کیا سانبھر میٹھا، کھاری ہے
کیا داکھ ، منقٌا ، سُونٹھ ، مرچ، کیا کیسر، لونگ، سپاری ہے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا
یہ بدھیا لادے، بیل بھرے، جو پُورب پچھٌم جاوے گا
یا سُود بڑھا کر لاوے گا، یا ٹوٹا گھاٹا پاوے گا
قزٌاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا
دھن دولت، نانی، پوتا کیا، اک کنبہ کام نہ آوے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا
جب چلتے چلتے رستے میں یہ گُون تیری ڈھل جاوے گی
اک بدھیا تیری مٹٌی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی
یہ کھیپ جو تُو نے لادی ہے، سب حصوں میں بٹ جاوے گی
دھی، پُوت، جنوائی، بیٹا کیا، بنجارن پاس نہ آوے گی
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا
کچھ کام نہ آوے گا تیرے، یہ لعل، زمٌرد، سیم و زر
جب پُونجی بات میں بکھرے گی، پھر آن بنے گی جان اوپر
نقٌارے، نوبت، بان، نشاں، دولت، حشمت، فوجیں، لشکر
کیا مسند، تکیہ، مِلک، مکاں، کیا چوکی، کرسی، تخت، چھپٌر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا
ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن؟
ٹک غافل دل میں سوچ ذرا، ہے ساتھ لگا تیرے دشمن
کیا لونڈی، باندی، دائی، دوا، کیا بندا، چیلا، نیک چلن
کیا مندر، مسجد، تال، کنویں، کیا گھاٹ سرا، کیا باغ، چمن
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا
کیوں جی پر بوجھ اٹھاتا ہے، ان گُونوں بھاری بھاری کے ؟
جب موت کا ڈیرا آن پڑا، پھر دُونے ہیں بیوپاری کے
کیا ساز، جڑاؤ، زر، زیور، کیا گوٹے دھان کناری کے
کیا گھوڑے زین سنہری کے، کیا ہاتھی لال عماری کے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا
مغرور نہ ہو تلواروں پر، مت پھول بھروسے ڈھالوں کے
سب پٌٹا توڑ کے بھاگیں گے، منہ دیکھ اجل کے بھالوں کے
کیا ڈبٌے موتی ہیروں کے، کیا ڈھیر خزانے مالوں کے
کیا بُغچے تاش مُشجٌر کے، کیا تختے شال مشالوں کے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا
جب مرگ پھرا کر چابُک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا
کوئی تاج سمیٹے گا تیرا، کوئی گُون سیئے اور ٹانکے گا
ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تُو خاک لحد کی پھانکے گا
اُس جنگل میں پھر آہ (نظیر) اک بُھنگا آن نہ جھانکے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا
نظیر آکبرآبادی
Kal Nazar Aya....
کل نظر آیا چمن میں اک عجب رشکِ چمن
گل رخ و گلگوں قبا و گلعذار و گلبدن
مہر طلعت، زُہرہ پیکر، مُشتری رو، مہ جبیں
سیم بر، سیماب طبع و سیم ساق و سیم تن
تیر قد، نشتر نگہ، مژگاں سناں، ابرو کماں
برق تاز و رزم ساز و نیزہ باز و تیغ زن
زُلف و کاکل، خال و خط، چاروں کے یہ چاروں غلام
مشکِ تبت، مشکِ چیں، مشکِ خطا، مشکِ ختن
نازنیں، ناز آفریں، نازک بدن، نازک مزاج
غنچہ لب، رنگیں ادا، سیمیں زنخ، شیریں دہن
بے مروت، بے وفا، بے درد، بے پروا خرام
جنگجو، قتال وضع و تند خو و دل شکن
دوش و بر، دندان و لب، چاروں سے یہ چاروں خجل
نسترن، برگِ سمن، دُرِّ عدن، لعلِ یمن
سختی و بے رحمی و ظلم و جفا اس شوخ کے
معتمد، مومیٰ الیہ و مستشار و موتمن
مبتلا ایسے ہی خونخواروں کے ہوتے ہیں نظیر
بے قرار و دل فگار و خستہ حال و بے وطن
نظیر آکبرآبادی
Parda Utha Kar....
پردہ اٹھا کر رخ کو عیاں اس شوخ نے جس ہنگام کیا
ہم تو رہے مشغول ادھر یاں عشق نے دل کا کام کیا
آگئے جب صیاد کے بس میں سوچ کیے پھر حاصل کیا
اب تو اسی کی ٹھہری مرضی جن نے اسیرِ دام کیا
چشم نے چھینا پلکوں نے چھیدا، زلف نے باندھا دل کو آہ
ابرو نے ایسی تیغ جڑی جو قصہ ہے سب اتمام کیا
سخت خجل ہیں اور شرمندہ، رہ رہ کر پچھتاتے ہیں
خواب میں اس سے رات لڑے ہم کیا ہی خیال خام کیا
چھوڑ دیا جب ہم نے غنیم کے کوچے میں آنے جانے کو
پھر تو ادھر اس شوخ نے ہم سے شکوہ بھرا پیغام کیا
اور ادھر سے چاہت بھی یوں ہنس کر بولی واہ جی واہ
اٹھیے چلیے یار سے ملیے اب تو بہت آرام کیا
یار کی مے گوں چشم نے اپنی ایک نگہ سے ہم کو نظیر
مست کیا، اوباش بنایا، رند کیا، بدنام کیا
نظیر آکبرآبادی
Us ke Sharaar e .....
اس کے شرارِ حسن نے، شعلہ جو اک دکھا دیا
طور کو سر سے پاؤں تک، پھونک دیا جلا دیا
پھر کے نگاہ چار سو، ٹھہری اسی کے رو برو
اس نے تو میری چشم کو، قبلہ نما بنا دیا
میرا اور اس کا اختلاط، ہو گیا مثلِ ابر و برق
اس نے مجھے رلا دیا، میں نے اسے ہنسا دیا
میں ہوں پتنگِ کاغذی، ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا اِدھر گھٹا دیا، چاہا اُدھر بڑھا دیا
تیشے کی کیا مجال تھی، یہ جو تراشے بے ستوں
تھا وہ تمام دل کا زور، جس نے پہاڑ ڈھا دیا
شکوہ ہمارا ہے بجا، مفت بروں سے کس لئے
ہم نے تو اپنا دل دیا، ہم کو کسی نے کیا دیا
سن کے یہ میرا عرضِ حال، یار نے یوں کہا نظیر
چل بے زیادہ اب نہ بک، تو نے تو سر پھرا دیا
نظیر آکبرآبادی
Ranjish Hi Sehi...
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ
تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لئے آ
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہِ دنیا ہی نبھانے کے لئے آ
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لئے آ
اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم
اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لئے آ
اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لئے آ
احمد فراز
Chor Jaane Ko Meri.....
چھوڑ جانے کو مری راہ میں آتا کیوں ہے
آ ہی جاتا ہے تو پھر چھوڑ کے جاتا کیوں ہے
آسرا تو اجنبی دیوار بھی دے دیتی ہے
یار شانے سے مرا ہاتھ ہٹاتا کیوں ہے
روز ہاتھوں سے ترے گر کے فنا ہوتا ہوں
دشتِِ ہستی سے مرا نقش اٹھاتا کیوں ہے
کس سے پوچھوں کہ شبِ ماہ نہ آنے والا
چاندنی بھیج کے اُمّید جگاتا کیوں ہے
میں تو ویسے ہی تجھے مٹ کے ملا کرتا ہوں
دل کے شیشے سے مرا عکس مٹاتا کیوں ہے
رائگانی میں کئی بار خدا سے پوچھا
میں اگر کچھ نہیں بنتا تو بناتا کیوں ہے
اب تو اُس آخری انکار کو مدت گزری
اب بھی اُس حسنِ جفا کش سے ناطہ کیوں ہے
لے پھر اب خود ہی اُٹھا قضیہء دین و دنیا
میری جب سُنتا نہیں ، بیچ میں لاتا کیوں ہے
Agr Main Tum Pe....
اگر میں تــــم پہ کچھ لکھتا
تمہیں میں کُل جہـــاں لکھتا
چـــــمن لکھتا،گھٹــــا لکھتا
تمہیں میں آسمــــــــاں لکھتا....!!
صبح لکھتا میں شــاموں کی...!!
تمہیں کوئی سنہرا سا سماں لکھتا
ستــــــارہ تــم کو لکھتا میں....!!
تمہی کو کہکشـــــــاں لکھتا....!!
بھلا کے ساری دنیـــــا کو،،
تمہیں میں مـن کی چـاہ لکھتا..!!
میری اوقــــــــات ہی کیا ہے........؟؟
تمہاری شـــــان میں لکھوں........!!
مگر حـــــسرت ہے یہ دل میں.....!!
جو پـــوری ہو نہیــں سکتی........!!
میں_تم_پہ_نظــــم_لکھنے_سے
تمہــــــارا_ہو_نہیں_سکتا.....!!